بکھرے ہوئے بیٹھے ہیں وہی آپ وہی ہم سوچوں کے دریچے ہیں وہی خواب ہمارے شدت سے تری دید کا طالب ہے زمانہ سب دل کے مناطر بھی ہیں بت تاب ہمارے