شرابوں میں نہ مجھ کو ڈوب جانا چاہئے تھا
مجھے تو اور لوگوں کو بچانا چاہئے تھا
جو کھائیں در بدر کی ٹھوکریں تو خیال آیا
نہ اپنے ہاتھوں گھر اپنا جلانا چاہئے تھا
پھٹے کپڑے بدن ہے چاک تنہا گھومتا ہے
جسے پھولوں سے کل تک دوستانہ چاہئے تھا
میں سیدھا سادہ انساں کیسے فنکاروں میں رہتا
مجھے کچھ فن زمانے والا آنا چاہئے تھا
جو ہر اک شخص ہی اب بےوفا کہتا ہے اس کو
مجھے غم اپنا لوگوں سے چھپانا چاہئے تھا
یہ رنج و غم کا عالم بزم میں برپا نہ ہوتا
نہ شعر اپنا وہاں مجھ کو سنانا چاہئے تھا
مری مانند گر مجھ سے محبت تھی اسے تو
میں روٹھا تھا اسے مجھ کو منانا چاہئے تھا
جو ہر اک بات پر لڑنے کی اس نے ٹھان لی تھی
اسے شاید بچھڑنے کا بہانہ چاہئے تھا
کچھ ایسے بھی ہمیں باقرؔ بچھڑنا پڑ گیا کہ
مجھے بس وہ ، اسے سارا زمانہ چاہئے تھا