شرابی رت کو صنم یوں نہ آج تڑپاؤ
اٹھا کے پلکیں ذرا مے کا نور برساؤ
سرور کیفِ جہاں ہے تیری نگاہوں میں
بہک نہ جائیں صنم آکے تیری بانہوں میں
مچلنے دو میرے دل کو نہ تم قریب آو
اٹھا کے پلکیں ذرا مے کا نور برساؤ
تمہارے جلوہء گل فام کی قسم جاناں
لبوں کے رس سے بھرے جام کی قسم جاناں
ہمارے دل کو ذرا دیر آج بہلاؤ
اٹھا کے پلکیں ذرا مے کا نور برساؤ
بہارِ دل پہ عجب بے خودی سی چھائی ہے
گھٹا بھی جھوم کے دیکھو زمیں پہ آئی ہے
دھڑکتے دل کے حسیں ساز پہ ذرا گاؤ
اٹھا کے پلکیں ذرا مے کا نور برساؤ