چہرہ پہ چمک، باتوں میں کھنک ، آنکھوں میں شرارت تھوڑی سی
کیا جرم تھا جو دل بھول گیا اپنی بھی شرافت تھوڑی سی
آکاش تلک دیکھ آئے ہیں ، کوئی بھی نہیں ہمسر تیرا
ہاں ، چاند میں بس مل جاتی ہے ، کچھ تیری شباہت تھوڑی سی
وہ ھم سے کشیدہ رہتے ہیں ، ہم ان سے کشیدہ رہتے ہیں
دونوں میں انائیں تھوڑی سی ، دونوں کو شکایت تھوڑی سی
آلام زمانہ سے تو ہم ، مرجھائے سے رہتے ہیں ۔ لیکن
دیدار سے ان کے آئے ہے ، چہرہ پہ بشاشت تھوڑی سی
ہم خؤب سمجھتے ہیں یارو ، مفہوم تمھاری باتوں کا
اﷲ نے بخشی ہے شاید، ہم کو بھی ذہانت تھوڑی سی
چھوڑ آئے حرم کی خاطر ، سب جام و سبو کی شامیں ہم
باقی ہے مگر دل میں اب بھی ، میخانے سے رغبت تھوڑی سی
دلبر کی اداؤں سے ہی فقط ، بھانپے ہیں ‘حسن“ دلبر کا مزاج
ہے فن میں محبت کے حاصل ، ہم کو بھی مہارت تھوڑی سی