بھلا کسی کی کبھی رنگ و باس تھی کتنی
شفق کو قید میں رکھا ہے آس تھی کتنی
رواں دواں ہوئے خوشبو کے قافلے ہر سو
دیار درد میں آمد کی پیاس تھی کتنی
نہ تم ملو گے نہ میں،ہم بھی دونوں لمحے ہیں
وہ لمحے جا کے جو واپس قیاس تھی کتنی
پتہ چلے جو محبت کا درد لے کے چلو
مرے مکاں کی گلی بھی اداس تھی کتنی
تمہاری رات پہ اتنا ہی تبصرہ ہے بہت
مکیں اندھیرے میں ہیں بد حواس تھی کتنی
گزر گیا جو زمانہ وہ یاد آتا ہے
محبتوں کے فسانہ میں پاس تھی کتنی
کھلے دریچے کے باہر ہے کون سا موسم
کہ آگ بھرنے لگی بے لباس تھی کتنی
خفا ہوئے بھی کسی سے تو کیا کیا وشمہ
بہت ہوا تو رہا دل شناس تھی کتنی