شمع الفت کی تو جلائی ہے
کیوں محبت میں بھی جدائی ہے
زندگی بے وفا ہے مان بھی لے
یہ تو انساں کو آزمائی ہے
روح اور جسم کی تمازت میں
زندگی رنج وغم اٹھائی ہے
سرفروشی کی داستانوں میں
زندگی زندگی کو کھائی ہے
اس نے وعدہ کیا تھا آنے کا
آج بھی انتظار آئی ہے
عاشقوں کی عجب ہے بزم جہاں
خود سے مایوس ہوں جدائی ہے
اب یہ جلنا ہماری قسمت ہے
دیا الفت کا یہ جلا ئی ہے
مجھ کو رونا تھا حال دل پہ مگر
میری قسمت پہ دل دہائی ہے
قلب وشمہ کی بے سبب دھڑکن،،
رات دن ہی اسے ستائی ہے