شورِ ہجراں کی کوئی ساعَت اگر روشن نہیں ہوتی
اَشک آنکھوں میں رہیں لیکن نَظر روشن نہیں ہوتی۔
دِل کو تَسکینِ تَمنا بھی تو حاصِل کب ہوئی مظہرؔ
چاہ ہو جتنی بھی گہری، مُعتبر روشن نہیں ہوتی۔
جِس طرف دیکھو، اَندھیرا سا بَسا ہوتا ہے دِل میں،
دَرد کی بَستیوں کی کوئی دیوار روشن نہیں ہوتی۔
یاد کی شَمعیں جلاتے ہیں، مگر وہ لُو بُجھاتی،
زِندگی کی دھُوپ میں یہ شُعلہ گر روشن نہیں ہوتی۔
سَچ تو یہ ہے خواب بھی اَب ہم سے روٹھے روٹھے ہیں،
نیند آتی ہے مگر وہ چشمِ تَر روشن نہیں ہوتی۔
تم نہیں ہو، ہم نہیں ہیں، اور نہ وہ لَمحے رَہے،
وَرنہ یوں ہر بات کی اَیسی خَبر روشن نہیں ہوتی۔
دوستی، اُلفَت، مُحبت سَب سَزا کے نام سے،
دِل پہ جو گُزری وہ کِسی دَفتَر روشن نہیں ہوتی۔
مظہرؔ اَب ہر شخص جیسے آئنے سے ڈَر گیا،
کاش سَچ کہنے کی بھی کوئی ہُنر روشن نہیں ہوتی۔