لب پہ اِک نام بڑی دیر کے بعد آیا ہے
غم...سَرِ عام بڑی دیر کے اُسے بعد آیا ہے
اُن سے بِچھڑے ہیں تو قابو مِیں ہمارے آخر
دلِ ناکام بڑی دیر کے بعد آیا ہے
ہر خطا ہم ہی سے منسُوب ہوئی ہے پہلے
اُن پہ اِلزام بڑی دیر کے بعد آیا ہے
یا تو آئی ہے بہار اب کے بڑی دیر کے بعد
یا وہ گُلفام بڑی دیر کے بعد آیا ہے
اور کُچھ دیر ٹھر جاؤ عنایت ہو گی
دِل کو آرام بڑی دیر کے بعد آیا ہے
روز آ جاتا تھا گھر اپنے سرِ شام " سَکُون
آج کی شام بڑی دیر کے بعد آیا ہے