مری خاموش آنکھوں سے شکوہ نہ کیجئے
اک ذرا چھیڑئے پھر چھیڑنے کا مزہ لیجئے
حسن کو عشق سے یہ امتیاز کیسا
اک زاوئے کے دو رنگ دونو ملا دیجئے
مشکل سے ہے اترا دل پہ حجاز تیرا رضا
چہرے سے اس زلف بد نصیب کو ہٹا دیجئے
رنجش کو لئے دل مےگام گام نہ پھریئے
منت مے کر رہا ہوں رنجش مٹا دیجئے
مری آرزوں کا اتنا تو بھرم رکیئے
مشکل مے پھنس گیا ہو ہاتھ بٹا دیجئے
نشتر یہ جدائی کے خیرات مانگتے ہیں
چاہت کی خواب گاہ مے غم دنیا لٹا دیجئے