شہ سرخیوں میں خون کی اک دھار دیکھ کر
میں رو رہی ہوں شام کا اخبار دیکھ کر
قسمت میں اب خزاں کا مجھے ہو چلا یقیں
پھولوں کی وادیوں میں فقط خار دیکھ کر
کیا موجِ غم ہے آنکھ میں ، دشتِ فراق ہے
دل میں یہ سوئے درد کو بیدار دیکھ کر
آیا خیالِ یار تو شعروں میں کہہ دیا
خوش ہوں میں سوچ و فکر کا معیار دیکھ کر
اپنی ہی جاں بچائی ہے دشمن نے بھاگ کر
عزم و عمل کی تیغ یا تلوار دیکھ کر
وشمہ میں بھول جاؤں گی رشتہ ہے اس سے کیا
اپنی میں اس کے سامنے پھر ہار دیکھ کر