شیر کو اپنے سامنے پا کر جب میں پکارا جنگل میں
مرے علاوہ کوئی نہیں تھا لکڑ ہارا جنگل میں
گھوڑ سوار نے جس قیدی کو شہر تلک پہنچانا تھا
رستہ ناہموار ہوا تو اُسے اتارا جنگل میں
جس بوڑھے نے اپنے ہاتھ سے اجڑے گھر آباد کیے
اس کا کنبہ بھٹک رہا ہے مارا مارا جنگل میں
اس کے گونگے بہرے دریا اس کی جانب بہتے تھے
لکڑی بن کر راکھ ہوا تھا جسم ہمارا جنگل میں
گھر سے روٹھ کے جانے والے آخر گھر کو لوٹیں گے
چشمے کا جب میٹھا پانی ہو گا کھارا جنگل میں