لا ابالی ہی رہو خون سکھایا نہ کرو
ہر سنی بات کو سینے سے لگایا نہ کرو
ابھی تو آئے ،ذرا ٹھہرے اور چل بھی دئے
وقت پہ اس طرح احسان جتایا نہ کرو
وحشتیں ٹوٹ برستی ہیں حسن والوں پر
آئینہ ان کو سر شام دکھایا نہ کرو
پھر کہیں یہ نہ ہو کہ ٹوٹ کے بکھرو تنہا
اس قدر خواب بھی پلکوں پہ سجایا نہ کرو
صاف لفظوں میں کہو مجھ سے محبت ہے تمہیں
بات کو یونہی میری جان ! گھمایا نہ کرو
دیکھنا اس سے بھی فطرت میں خلل پڑتا ہے
تتلیاں پھول کے پہلو سے اڑایا نہ کرو
آس کی ڈور سے قائم ہے آرزو کا بھرم
روزن وقت پہ چلمن تو گرایا نہ کرو
جانتا ہوں کہ وہ سینے پہ مونگ دلتے ہیں
چھیڑ کر بات رقیبوں کی ہنسایا نہ کرو
پھوٹ پڑتا ہے دباؤ سے شوق کا لاوا
محرم راز سے اقرار چھپایا نہ کرو