صبحِ فِراق
Poet: By: منیٰ سلیم ہاشمی, Karachiتم صبحُ فراق کی بات کرتے ہو
تم بھی کیا کمال کرتے ہو
جن کو جانا ہوتا ہے
وہ کب کسی کے روکنے سے رکتے ہیں
وہ جو اپنی مرضی کے مالک ہیں
وہ کب اور کس کے آگے جھکتے ہیں
ان کو نہ ہوش ہے دنیا کا
نہ فکر ہے تمہاری
پھر کیوں وہ
تمہارے ہر خواب میں جگتے ہیں
تم وصل کی رات کی بات کرتے ہو، تم بھی کمال کرتے ہو
جن کو رُکنا ہوتا ہے
وہ کب کسی کے کہنے سے جا تے ہیں
وہ خود تو رُکتے ہی ہیں
اور وقت کو بھی روک جاتے ہیں
وہ جو اپنی مرضی کے مالک ہیں
وہ جب چاہیں محبت کا اظہار کرتے ہیں
بس خود سے ہی پیار کرتے ہیں،
بات بس اتنی ہے کہ
کچھ بات تو ہے انکی
جو بات کسی میں ملی نہیں
یہ جو اپنی مرضی کے مالک ہیں
اس دل پے ان کی مرضی چلتی نہیں
گر کرلے قید اس وجود کو کوئ بھی
اِن جذبوں پے کسی کی چلتی نہیں
تم بھی ان کا پاس رکھو
ہر جذبے کو دل کے پاس رکھو
کیونکہ ہر بات میں نفع اور نقصان دیکھنا
کہیں کا بھی انصاف نہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






