صبر کی انتہا کر کے
بہاروں کو خزاں کر کے
نہ کچھ ہم نے پایا تھا
نہ کچھ ہم نے پایا ہے
عجب ہے حوصلہ دل کا
وصل کو ہجر کر کے
نہ رونا ہم کو آیا تھا
نہ رونا ہم کو آیا ہے
محبت میں ناکامی میں
عام سا اک فلسفہ ٹھہرا
کہ وعدوں کو وفا کر کے
نہ راحت ہم نے پائی تھی
نہ سکوں ہم نے پایا تھا
لو اب آزاد ہو جاناں
نہ ہم تم کو ستائیں گے
کرب کی رات میں بھی
مثل اس کے مسکرائیں گے
کہ کچھ نہ ہم نے کھویا تھا
کچھ نہ ہم نے پایا ہے