صحرائے ذات میں پھرے تنہا ہی تنہا ہم
گنجان شہر میں رہے تنہا ہی تنہا ہم
صوت و صدا سے خالی تھا ماحول چار سو
حیرت سے دیکھتے رہے تنہا ہی تنہا ہم
اب کس سے جا کہیں کہ یہ زنجیر کھول دے
کس سے کہیں کہ تھک گئے تنہا ہی تنہا ہم
وہ داستاں جو ہم سے کسی نے نہیں سنی
خود سے ہی کہہ کے سنتے تھے تنہا ہی تنہا ہم
آزردگی کے رنگ سجا کر نہیں پھرے
غم سہتے ضبط کرتے تھے تنہا ہی تنہا ہم
تلقین و وعظ اوروں کو ہم نے بہت کئے
میخانے روز جاتے تھے تنہا ہی تنہا ہم
وامق جنوں کا دور ہے سرمایہ حیات
یک طرفہ عشق کرتے تھے تنہا ہی تنہا ہم