صحراِ دل کی ویرانیوں میں کبھی شامل تھا تُو
میری ساری عمر میں ایک تبسُم پل تھا تُو
تم نے ہی تو چلائے نازِ آشفتہ کو سہی راستے
بساطِ بے خودی میں جیسے میری عقل تھا تُو
خوفِ عروج و تنزل بھلا کیا اس کو
جس خاکی بدن کا ابد و ازل تھا تُو
تبسم طبیعت، وہی نازکی، وہ ضدی مزاج
کہتے ہیں مجھ سا ہی بلکل تھا توُ
تجھے دیکھا تھا دارِ ساعت میں ہر دفعہ
یہ کس شہنِ حسن کا ہم شکل تھا توُ
تُو منفرد تھا مختصر بھی مکمل بھی تھا
احسن جیسے آدھی پڑھی ہوی غزل تھا توُ