رو اَ روی میں ا گر تیز رو ہو ا بھی رہے
بچھے ہیں درد کے کانٹے ، اُے پتہ بھی رہے
کوئی تو خواب ہی دے دو اُداس آ نکھوں کو
کہ زند گی کے لئے کچھ تو آسر ا بھی رہے
ستم تو یہ کہ ستمگر کی بھی تمنا ہے
مرِی زباں پہ کو ئی حرفِ التجا بھی رہے
یہی تو ہو تا ہے ، ا و ر تم بھی چا ہتے ہو یہی
کہ بز مِ یا ر میں و ہ یا رِ بے وفا بھی ر ہے
اس اِہتمام سے ظالم حجاب کر تا ہے
کہ کچھ چھپا بھی رہے اور کچھ کھلا بھی رہے
یہ آ رزو ہے کہ جو رسم و راہ ہے اُس سے
اُس رسم و راہ میں کچھ دل کا معاملہ بھی رہے
کچھ ایسے ڈھنگ سے اب زند گی گز ار یں گے
صنم بھی راضی رہے اور خوش خدا بھی رہے ٴ