صنم سے عیارگی ہے اگرچہ یاری ہے دے دیا دل اسکو ہو شیاری ہے اس دل پر ہے جاں نثاری ہے ہم کو سمجھو دل کی بے قراری ہے اب جو ہو جائے کیا شرمساری ہے اے دل بات اپنی وضع داری ہے پر نہیں اے مہرباں عادت تماری ہے