صورتِ ابر مرے سر پہ رہا کرتا ہے
دُھوپ کو میرے بدن سے وہ جدا کرتا ہے
اپنے پیکر میں جیا کرتی ہے دنیا لیکن
وہ عجب شخص ہے وہ مجھ میں جیا کرتا ہے
پاس رہ کر بھی رفاقت نہیں مل پاتی کبھی
دُور، رہ کر بھی مرے ساتھ رہا کرتا ہے
اس سے پہلے کہ کوئی حرف دے لب پر دستک
وہ مری ان کہی ہر بات سنا کرتا ہے
جب بھی ہوتی ہے شبِ زیست میں تاریکی سی
بن کے مہتاب مری شب میں ضیا کرتا ہے
سارے جذبوں کی محبت کی چمک ہو جن میں
اُن ستاروں سے مری مانگ بھرا کرتا ہے
زخم کیسا ہی ہو دیتا ہی نہیں درد مجھے
درد سے پہلے ہی وہ اُسکی دوا کرتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ تھم جائیں گی سانسیں میری
کوئی پل کو جو وہ خاموش ہُوا کرتا ہے
کیوں نہ عاشی میں غرور اپنے مقدر پہ کروں
اِس قدر پیار بھلا کس کو ملا کرتا ہے