یاد بہاراں جب آجاتی ہے
کیف و مستی سی چھا جاتی ہے
نفس و آرزو کی حسیں زنجیر
اک حلقہء یاراں بنا جاتی ہے
سوز الفت کی اک کڑی شب
ضبط و بے کلی سکھا جاتی ہے
بکھرے پتھروں کی یہ راہ
کیا کیا سنگ میل دکھا جاتی ہے
ناصرکے سنگ چلنے والی ہوا
اب گزرے تو کترا جاتی ہے