ضروی تو نہیں جتنا میں اسکو
اتنا وہ مجھ کو سو چتا تو ھو گا
پل بھر میں کیسے مان جاؤں
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ گزرا ھوا وقت
وہ صبح و شام کی قربتیں
وہ ماضی کی یادیں
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ شروع شروع کاشرمانا
اسکا میرے سامنے نہ آنا
وہ میرا حجاب سے نظریں نہ ملا نا
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ میرے بغیراداس رھنا
دیر ھونے پہ بےچین رھنا
ملنےپر مسکراھٹ پھیلنا
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ زندگی کے حادثے
وہ چھوٹی چوٹی شرارتیں
وہ بیمار ھونے پر اسکا تڑپنا
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ گھنٹوں گھنٹوں کلام نہ کرنا
کن آنکھیوں سےایک دوسرے کو دیکھنا
پھر بلا وجہ خودی مسکرا دینا
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
اے پڑھنے والے تو کیوں حیراں ھے
یہ تو سب کی زندگی کا یکساں ساماں ھے
بار بار پڑھ کر تو بھی
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
معذرت کے ساتھ آخری شعر میں لفظ تو کا استعمال شعر کا وزن برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا ھے یہاں اس لفظ سے مراد آپ لیا جائے