نہ نکال مجھے تُو دیار میں رہنے دے
میں پاگل ہوں ترے پیار میں رہنے دے
میں یہ نہیں کہتا تُو میرا چناؤ کر
مجھے اُمید کی مگر قطار میں رہنے دے
اظہارِ محبت نہ کر مجھے پیار نہ کر
میرا تصور تُو اپنے انکار میں رہنے دے
دم توڑا تھا میرے عشق نے سسکتے ہوئے
تُو میرا گھر اُسی اُجاڑ میں رہنے دے
چلا جاؤں گا میں پھر سے خزاؤں میں
کچھ دیر تُو مجھے بہار میں رہنے دے
اُسے بھلا دیا ہے میں نے اب بات نہ کر
خدا کے واسطے مجھے قرار میں رہنے دے
مرض ہے تو احساس اُس کا ہے نہالؔ
طبیب سے کہو حالتِ بیمار میں رہنے دے