اپنی دنیا سے کیوں خفا ہوتی
تیرے در کی اگر گدا ہوتی
غم نہ ملتے جو تیری ہجرت کے
اپنے آنگن کی میں ہوا ہوتی
بیٹھی رہتی تمارے گلشن میں
میں بھی بلبل کی گر صدا ہوتی
مجھکو میری وفا نے کچھ نہ دیا
اچھا ہوتا جو بے وفا ہوتی
تو جو مل جاتا پیار کی صورت
کیوں مقدر سے میں خفا ہوتی
میں بھی تجھ کو ہی مانگتی رب سے
تیرے ہاتھوں کی میں دعا ہوتی
دل تقاضے نہ کر رہا ہوتا
روح تن سے اگر جدا ہوتی
شکلِ خوشبو جو کھِل رہی ہے کلی
شکلِ ہستی میں باوفا ہوتی
تو جو ملتا وفاؤں کی صورت
وشمہ ایسے نہ لا پتہ ہوتی