مل کے بھی تجھ سے تیرے طلبگار ہی رہے
تیری نظر کے زاویے میں گرفتار ہی رہے
قائل تھے ہم بھی تیرے بدلتے مزاج کے
لمحے تھے چاہتوں کے بیکار ہی رہے
دئیے جو ہم نے جلائے تھے دل کے مزار پے
وہ روشنیوں کے سفر میں شاہکار ہی رہے
سوندھی مٹی کی خوشبو بسی تھی فضاؤں میں
قبروں پے لپٹے پھول بے قرار ہی رہے
باتوں میں تجھ سے کوئی بھی جیتا ناں آج تک
لفظوں کے تیرے حصار میں شرمسار ہی رہے
ہر لمحہ خواہشوں کا گزرا تھا سوگ میں
جاتے ہوئے سب موسم منجھدھار میں رہے