طلوعِ صبح کا منظر کبھی تو آئے گا
وہ شخص روشنی لے کر کبھی تو آئے گا
ہم اس امید پہ محوِ سفر ہیں مدت سے
کہ راستے میں تیرا گھر کبھی تو آئے گا
خمارِ بندگی اوڑھے ہوئے کوئی جذبہ
تمہاری روح کو چھو کر کبھی تو آئے گا
کبھی تو سیکھے گا وہ خود سپردگی کا ہنر
وہ اپنی ذات سے باہر کبھی تو آئے گا
ابھی تو اس سے ہزاروں سوال کرنے ہیں
جو جا چکا ہے پلٹ کر کبھی تو آئے گا
میں موج موج اسے روح میں اتاروں گا
وہ خوشبوں کا سمندر کبھی تو آئے گا
ہمارا نام بھی شامل تیرے جواب میں ہے
سوالِ قصہ محشر کبھی تو آئے گا
حسن بکھرنے کو بے تاب ہے یہ شیشہ دل
کسی کی یاد کا پتھر کبھی تو آئے گا