مظلومِ عشق ہوں وفا میں مانگ رہی ہوں
مدّت سے میں اِک آس لیے جی تو رہی ہوں
دراصل جینے کی دعا میں مانگ رہی ہوں
حیرت ہے کہ گریہِ سمندر اُمڈ آی
ساحل سے اشکِ بارہا میں مانگ رہی ہوں
الفت ، خلوص ، رغبت و بینائے دللگی
کردار میں سب کچھ چھپا میں مانگ رہی ہوں
آجاؤ یارِ دور میرے صبر کا ساغر
لبریز ہے کہ پھر سزا میں مانگ رہی ہوں
میں نے تو وشمہ بات سے اِک بات نکالی
سچ ہے کہ بات کی ادا میں مانگ رہی ہوں
جی جاناں اب بتایئے کیسی لگی یہ غزل؟