عجب کیفیت محبت کے ماروں کی ہے
کبھی خدا سے سکوں مانگتے ہیں
کبھی پھر وہی جنوں مانگتے ہیں
کبھی حیات جاوداں پہ اُن کی نگاہ
کبھی حیات مستعار میں وصل کی التجاہ
کبھی اپنے ہی دل کے صحرا میں مجنوں کی طرز جینا
کبھی خیال کے نخلستان سے دیدار کے جام پینا
کبھی موسموں کا تغیر دل پر بے اثر
کبھی سیاہ راتوں میں بھی چاند جلوہ گر
کبھی خزاں رُتوں میں طبیعت خوشگوار
کبھی موسم بہار بھی لگے سوگوار
عجب حالت فسوں کے ماروں کی ہے
کبی نگاہ طلسم کے طلبگار
کبھی زلف پیچاں میں گرفتار
یہ کہانی دنیا سے ہاروں کی ہے
عجب کیفیت محبت کے ماروں کی ہے