Add Poetry

عجب ہے رنگ چمن جا بجا اداسی ہے

Poet: عرفان ستار By: Hamza, Islamabad

عجب ہے رنگ چمن جا بجا اداسی ہے
مہک اداسی ہے باد صبا اداسی ہے

نہیں نہیں یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے
میں ٹھیک ٹھاک ہوں ہاں بس ذرا اداسی ہے

میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اداسی ہے

طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا اداسی ہے

گداز قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا
عظیم وصف ہی انسان کا اداسی ہے

شدید درد کی رو ہے رواں رگ جاں میں
بلا کا رنج ہے بے انتہا اداسی ہے

فراق میں بھی اداسی بڑے کمال کی تھی
پس وصال تو اس سے سوا اداسی ہے

تمہیں ملے جو خزانے تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اداسی ہے

چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیر قبا اداسی ہے

مجھے مسائل کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اداسی ہے

فلک ہے سر پہ اداسی کی طرح پھیلا ہوا
زمیں نہیں ہے مرے زیر پا اداسی ہے

غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرم درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا اداسی ہے

عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اداسی ہے

وہ کیف ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اداسی ہے

وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفانؔ
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے کیا اداسی ہے

Rate it:
Views: 908
30 Jun, 2021
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری
ترے قصہ کے پیچھے پیچھے ہوگی داستاں میری
کریں گی دیکھیے الفت میں کیا رسوائیاں میری
جہاں سنئے بس ان کا تذکرہ اور داستاں میری
قیامت میں بھی جھوٹی ہوگی ثابت داستاں میری
کہے گا اک جہاں ان کی وہاں یا مہرباں میری
بہت کچھ قوت گفتار ہے اے مہرباں میری
مگر ہاں سامنے ان کے نہیں کھلتی زباں میری
قیامت کا تو دن ہے ایک اور قصہ ہے طولانی
بھلا دن بھر میں کیوں کر ختم ہوگی داستاں میری
وہ رسوائے محبت ہوں رہوں گا یاد مدت تک
کہانی کی طرح ہر گھر میں ہوگی داستاں میری
سناؤں اس گل خوبی کو کیوں میں قلب کی حالت
بھلا نازک دماغی سننے دے گی داستاں میری
کہوں کچھ تو شکایت ہے رہوں چپ تو مصیبت ہے
بیاں کیوں کر کروں کچھ گو مگو ہے داستاں میری
اکیلا منزل ملک عدم میں زیر مرقد ہوں
وہ یوسف ہوں نہیں کچھ چاہ کرتا کارواں میری
یہ دل میں ہے جو کچھ کہنا ہے دامن تھام کر کہہ دوں
وہ میرے ہاتھ پکڑیں گے کہ پکڑیں گے زباں میری
پھنسایا دام میں صیاد مجھ کو خوش بیانی نے
عبث پر تو نے کترے قطع کرنی تھی زباں میری
نہ چھوٹا سلسلہ وحشت کا جب تک جاں رہی تن میں
وہ مجنوں ہوں کہ تختے پر ہی اتریں بیڑیاں میری
مشبک میں بھی تیر آہ سے سینے کو کر دوں گا
لحد جب تک بنائے گا زمیں پر آسماں میری
محبت بت کدہ کی دل میں ہے اور قصد کعبہ کا
اب آگے دیکھیے تقدیر لے جائے جہاں میری
بھلا واں کون پوچھے گا مجھے کچھ خیر ہے زاہد
میں ہوں کس میں کہ پرسش ہوگی روز امتحاں میری
تصدق آپ کے انصاف کے میں تو نہ مانوں گا
کہ بوسے غیر کے حصے کے ہوں اور گالیاں میری
مصنف خوب کرتا ہے بیاں تصنیف کو اپنی
کسی دن وہ سنیں میری زباں سے داستاں میری
فشار قبر نے پہلو دبائے خوب ہی میرے
نیا مہماں تھا خاطر کیوں نہ کرتا میزباں میری
قفس میں پھڑپھڑانے پر تو پر صیاد نے کترے
جو منہ سے بولتا کچھ کاٹ ہی لیتا زباں میری
وہ اس صورت سے بعد مرگ بھی مجھ کو جلاتی ہیں
دکھا دی شمع کو تصویر ہاتھ آئی جہاں میری
ہر اک جلسے میں اب تو حضرت واعظ یہ کہتے ہیں
اگر ہو بند مے خانہ تو چل جائے دکاں میری
طریقہ ہے یہی کیا اے لحد مہماں کی خاطر کا
میں خود بے دم ہوں تڑواتی ہے ناحق ہڈیاں میری
پسند آیا نہیں یہ روز کا جھگڑا رقیبوں کا
میں دل سے باز آیا جان چھوڑو مہرباں میری
ہزاروں ہجر میں جور و ستم تیرے اٹھائے ہیں
جو ہمت ہو سنبھال اک آہ تو بھی آسماں میری
یہ کچھ اپنی زباں میں کہتی ہیں جب پاؤں گھستا ہوں
خدا کی شان مجھ سے بولتی ہیں بیڑیاں میری
بنایا عشق نے یوسف کو گرد کارواں آخر
کہ پیچھے دل گیا پہلے گئی تاب و تواں میری
پڑھی اے بزمؔ جب میں نے غزل کٹ کٹ گئے حاسد
رہی ہر معرکہ میں تیز شمشیر زباں میری
 
ناصر
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets