اب تو ممکن ہی نہیں ان سے ملاقات اکرام
اب تو عروج پہ پہنچی ہے اس کی ذات اکرام
وہی وعدے ہیں اور رسموں کی زنجیر باقی
کب بدلتی ہیں زمانے کی روایاتے اکرام
اک وہ دن تھے ایک دوسرے کو سوچتے تھے ہم
اب ملتے نہیں دونوں کے خیالات اکرام
میری ہر صبح کا آغاز تیرے نام سے ہو
تیری یادوں میں کٹے میری ہر اک رات اکرام
تم کہاں اور میرے پیار کا معیار کہاں
وہ کتنی سادگی سے کر گیا یہ بات اکرام