یہ عشق اور وفا، کسی کے نہیں ھوتے
جیسے بادل اور بادصبا، کسی کے نہیں ھوتے
کتنا ہی انس کیوں نہ ھو ان سے،آخر ڈبو ہی دیتے ہیں
سچ میں یہ کنارے اور یہ دریا،کسی کے نہیں ھوتے
جب چایے جیسے چاہے کوئی انھیں نوچ لے
اب اس درجہ بھی خواب ارزاں، کسی کے نہیں ھوتے
انہی پہ مچلتی ہیں کبھی دعا،کبھی سسکتی ہے بددعا
یہ لب بھی حق میں سدا، کسی کے نہیں ھوتے
خود ھی چنتا ہے انسان انھیں اپنے لیئے
ویسے تو یہ سزا و جزا، کسی کے نہیں ھوتے
دیر سے ھی سہی ھم بھی بلآخر یہ مان گئے
کہ خود غرض لوگ اپنے سوا،کسی کے نہیں ھوتے
اغراض و مقاصد میں بدلتے رہتے ہیں یہ رنگ و روپ طاہر
حقیقت میں یہ دنیا کے خدا ،کسی کے نہیں ھوتے