عشق سے جی بھر گیا آخر
تُو بھی دل سے اُتر گیا آخر
کسی نے چُرایا تو ہے ضرور
دل ہمارا کدھر گیا آخر
لوگ اُٹھانے لگے ہیں پتھر
جنوں حد سے گزر گیا آخر
دشمن بھی نہ کر سکا کبھی
دوست ہی وہ کام کر گیا آخر
فراقِ یار میں سُلگتے سُلگتے
امر بیچارہ مر گیا آخر