عشق میری دل کا عقیدہ بن چکا ہے
فکر رنج بھی بڑا سنجیدہ بن چکا ہے
بے وجہ تشویش کا پیراہن پہن کر
انسان اپنے آپ سے رنجیدہ بن چکا ہے
بڑے دقیق تھے لیکن ضبط کرتے گئے
دردوں کا اِس طرح ذخیرہ بن چکا ہے
دامن نہ ملا اشک گرا بھی لیتے کہاں
ان آنکھوں میں ابکہ جزیرہ بن چکا ہے
بیپرواہ تھا عاشقی سے وہ کتنی حد تک
سنا ہے وہ شخص آج گرویدہ بن چکا ہے
سمجھتے تھے ہجر کی تار جس کو
اب وہی آواز تو قصیدہ بن چکا ہے