عشق میں اب خون پانی کیجیے
نذر وحشت یہ جوانی کیجیے
آپ کے ہاتھوں میں ہے سانسوں کی ڈور
جتنی چاہے کھینچا تانی کیجیے
التجا کر کے نہ شرمندہ کریں
حکمراں ہیں حکمرانی کیجیے
مل رہے ہیں ہم پرانے موڑ پر
آپ پھر باتیں پرانی کیجیے
میں بہت مشکل سے ملتا ہوں حضور
مل گیا ہوں میزبانی کیجیے
میرا تو ہے لب کشا ہونا گناہ
آپ ہی جادو بیانی کیجیے
ذکر کیجے اب عطاؔ کے شعر کا
ختم عامرؔ کی کہانی کیجیے