عشق نہیں ہے اتنا آساں، دیکھنے میں یہ جو لگتا ہے
جو کرے بس وہی جانے، جس آگ میں ہر دم سلگتا ہے
ہوتی ہے روز و شب یونہی، مشق مرگ و زیست کی
صبح سمیٹے خود کو جو، شام کو روز بکھرتا ہے
پل پل میں ہنستا روتا ہے، پل پل میں مرتا جیتا ہے
پل پل میں کھل کے مرجھائے، پل پل میں ٹوٹ کے سمٹتا ہے
خود کو ڈھونڈے خود میں ہی، پھر بھاگ جائے خود سے ہی
بے رحم وقت کی سولی پر، جس وقت دیکھو لٹکتا ہے
راتوں کو جگائے بے چین کرے، یہ دل لگی ہے عشق نہیں
عشق تو آگ کا دریا ہے، جو کود پڑے بس جلتا ہے
صبح کیسی ہے شام کیسی، عشق کو خبر کیا ہے رات کیسی
بس عشق سے پوچھو معشوق کی خبر، روح میں اسکی بستا ہے
ہنستے ہیں جس پر اہل زمانہ، دیکھ لیں کبھی تو پھٹ پڑیں سب
وہ منظر جب کہ بے چین ہو کر ٹوٹ کے کوئی بکھرتا ہے