عشق پر ہجر کا کیسا ہے غضب، دیکھ ذرا
مر مٹے پر نہ ملی وصل کی شب، دیکھ ذرا
حسن کی ایک نظر حشر بپا کردے گی
جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا
دیکھتا روز تماشا ہوں نیا میں بھی یہاں
میرا کچھ ساتھ تو دے، تُو بھی یہ سب دیکھ ذرا
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا
ساتھ مانگا ہے ترا، اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ مرا، میری طلب دیکھ ذرا
ختم ہونے کو نہیں آے ابھی میرے الم
چھیڑ بیٹھا ہوں مگر ساز طرب دیکھ ذرا
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب
میرا برتاو، مری حد ادب، دیکھ ذرا
تاک میں دوست بھی ہیں اور عدو بھی اظہر
اب ترے پیش نظر ہو کہ عقب، دیکھ ذرا