عشق کیا جو ہے تو ازل کو دیکھ
مڑکے بھی نہ کہیں کسی منزل کو دیکھ
جو گذر گیا وہ بھی ایک کل تھا
اب ہر نظر آنے والے کل کو دیکھ
تو بسا ہے مجھ میں دھڑکن کی طرح
کبھی توُ چھوکر بھی میرے دل کو دیکھ
تجھے ستاروں کی ابکہ پھر کیا ضد ہے
ذرا ٹھہرکے کہیں اُس کا آنچل تو دیکھ
پتھروں سے مل کر پتھر بن گئے لوگ
عبادتوں نے جو دے دیا دنگل تو دیکھ
اُس کوچے میں آج کئی دل ٹوٹیں گے
حسُن رخسار پہ نکھرا وہ تل تو دیکھ
کوئی بکھرکے بھی سنور جاتا ہے سنتوشؔ
صلح و آشتی کا ایک پل تو دیکھ