عشق کے دریا میں جو اتر گیا
ڈوبا ڈوبا وہ سمجھو کہ مر گیا
دل کہاں سے لائوں اب سمیٹ کر
جو تیرے پیار میں ٹوٹ بکھر گیا
عہد تھا کوئی ساتھ نبھانے کا۔۔۔
آہ ! کیسے ظالم ! پھر تو مکر گیا ؟
تم کیا ملے تو یوں لگا جیسے۔۔۔
وقت تھم گیا جیسے لمحہ ٹہر گیا۔۔۔
کیا مصیبت ھے کہ تیرے ہوتے۔
دل غم تنہائی میں اپنا گہر گیا۔۔۔
آہ ! کوئی تو ہوتا چارہ غم اپنے۔۔۔
کہ غم کے مارے دل اپنا مر گیا۔
عشق میں جان کی امان نہیں کوئی۔۔۔
یاد ھے نا ! کیسےمنصور سولی چڑھ گیا۔؟
تیرے آنے کی امید میں اسد نامراد۔
انتظار کرتے کرتے کب کا مر گیا۔