کاتب تقدیر سے روز مانگا ہے تجھے
اپنے هاته کی لکیروں میں بارہا کھوجا ہے تجھے
ہر لحظہ لگی ہے مجھے تیری ہی لو
کچھ ایسے خشو سے مانگاہے دعاوں میں تجهے
دنیا پوچھتی ہے یہ کیسی دیوانگی ہے میری؟
کون بتائے انهیں ہوش مجهے آیا ہے زمانوں کے بعد
اب ہے رقص میں ساری کائنات ہستی
ایسا جوبن مجھ پر آیا ہے زمانوں کے بعد
تھی تیری نظر میں کچھ ایسی تاثیر مسیحائی
قرار مجھے آیا ہے زمانوں کے بعد
یہ تیری رفاقت میں ملے ہیں جو تہمتوں کے انبار
سچ کہوں ! لطف آتا ہے ان میں بھی زمانوں کے بعد
اور یہ دستور رہا ہمیشہ سے حاکم وقت ک
کہ انارکلییاں چن دی جاتی ہیں دیواروں میں زندہ
ہم ہیں اس روش سے بخوبی واقف
اس لئے درگور ہوتے ہوئے بھی سکون آرہا ہے زمانوں کے بعد