سجایٌ ہے اس نے محفل عشق کی
لگایٌ ہے دل میں آگ عشق کی
چل کر معلوم ہوجاتا ہے سب کو
کہ کتنی ہے دشوار منزل عشق کی
انجا نے ہی میں دل بیٹھتے ہیں
خُد سے ہوتی نہیں تمّنہ عشق کی
دل معشوق کی محبت میں سرشاد ہو
یہ بھی اِک پہچان ہوتی ہے عشق کی
اوّل دیوانگی میں دیوانہ مست ہوتا ہے
حقیقت کھلتی ہے رفتہ رفتہ عشق کی
ہِیرے موتی اس میں جڑ دیۓ جاتے ہیں
جس کو کردے موم آگ عشق کی
دل چُور چُور معروج جو غموں سے ہو جاےٌ
ہاےٌ کہ یہی ہوتی ہے خوراک عشق کی