ڈر رہے ہو عشق کی تشویر سے
عشق میں تو سیکھ لو کچھ ہیر سے
رہتا ہے ناراض مجھ سے پھر کیوں
بات کرتا ہے مری تصویر سے
ذکر اس کا تو کہیں آیا نہیں
ڈر رہا ہے کیوں مری تحریر سے
خواب آنکھوں میں سجا کر تم مری
کیوں ڈراتے ہو مجھے تعبیر سے
روٹھنا اچھا نہیں ہے اس طرح
باندھ لیجے پیار کی زنجیر سے
یوں ہی بس گمنام رہنے دو مجھے
خوف آتا ہے مجھے تشہیر سے
ڈر سا لگتا ہے مجھے انساں سے اب
کیا بچائیں خود کو ہم نخچیر سے