عمر بھر میں کرتا ، ادا رہ گیا
قرض محبت کا پھر بھی ، قضاء رہ گیا
وہ مجھے وادیِ وفا میں پکارتا رہا
دیتا ہوا میں بھی ، صدا رہ گیا
وہ خواب جس میں زندگی مقید تھی
وہ خواب آنکھوں میں ، سجا رہ گیا
کتاب محبت کی جلادی تھی میں نے
پر اک صفحے پر لفظِ ، وفا رہ گیا
وہ خط جس میں میری صفائیاں تھیں
وہ خط میرے پاس ، لکھا رہ گیا
بھری بزم میں تیرا بھرم نہ ٹوٹے
یوں میں تجھ سے ملنے کو ، رکا رہ گیا
ایک ہی لفظ کے معنٰے بھی بدل جاتے ہیں
عشق تجھ کو بقاء مجھ کو ، فنا رہ گیا
الفاظ اپنی حقیقت کھودیں تو بات ایسی ہے
روح جسم سے نکلے تو ، کیا رہ گیا
ج ، ڑ ، سے ملا تو جُڑ بیٹھا
ج ، د ، ا ، مل کر بھی ، جدا رہ گیا
اس ایک لفظ سے ہی تو رشتہِ ازدواج مقدس ہے
نکال دو اس سے نکاح تو ، زنا رہ گیا
کون برداشت کریگا اک دوجے کو
پردہ عیبوں سے گر ، اٹھا رہ گیا
اخلاق اس کے پیچھے عمر بھر کی ریاضت تھی
سر یونہی نہ سجدے میں ، جھکا رہ گیا