عِشق محنت، صِلہ محبّت ہے
مان، شِکوہ، گِلہ محبت ہے
پُوچھتے ہو مِرا قبیلہ کیا
طائفہ، سِلسِلہ محبّت ہے
مئے کے آنکھوں سے جام بھر بھر کر
ساقیا تُو پِلا محبّت ہے
آدمیت کا اِحترام لیئے
جو بھی، جب بھی مِلا، محبّت ہے
اُس کی آنکھوں میں اِک پیام سا تھا
پُھول دل میں کِھلا محبّت ہے
درس دیتا تھا جو محبّت کا
آدمی خُود بِلا محبّت ہے
تُو تو ہر شئے خرِید سکتا ہے
دام لایا ہے؟ لا محبّت ہے؟
مُجھ کو حِکمت سے رام کرنے کو
تُو نہیں دُم ہِلا محبّت ہے
شعر حسرتؔ حسِیں نہیں میرے
صِرف اِن میں جِلا محبّت ہے