عکسِ حیات گرد پہ آنے نہیں دیا
اور آئینے پہ چہرہ سجانے نہیں دیا
اب سوچتی ہوں میں بھی دعاؤں سے کام لوں
کچھ آسرا بھی مجھ کو دوا نے نہیں دیا
پرواز کیسے آپ کے ڈر سے میں چھوڑ دوں
جذبوں سے بھاگنے جو خدا نے نہیں دیا
سچ ہے کہ ہم جئے تو بڑی شان سے جئے
عزت کو سر کبھی بھی جھکانے نہیں دیا
جلتے ہیں میرے گھر میں اداسی کے جو چراغ
ہوا کو بھی میں نے ان کو بجھانے نہیں دیا
خونِ جگر میں ہاتھ تھے میرے اسی لئے
اُس کو بھی کرب دل کا سنانے نہیں دیا
اِس زندگی کی بھیڑ میں وشمہ جی گم تھے ہم
جس نے کسی کو اپنا بنانے نہیں دیا