وہہ بھی کیسی لڑکی تھی
پانیوں میں بہتی تھی
بادلوں میں رہتی تھی
سانس سانس چلتی تھی
بات بات رہتی تھی
ہونٹ میں ہلاتا تھا
اور وہ مہکتا سا
گیت بنتی جاتی تھی
میں قلم ہلاتا تو
دل کے صاف کاغذ پر
نظم بنتی جاتی تھی
آنکھ کے دریچے میں، چاند بن کے کھلتی تھی
اور میرے خوابوں کی وادیوں میں رہتی تھی
وہ بھی کیسی لڑکی تھی
اپنی موت سے پہلے دوسرے دن آنے کا
وعدہ کر گئی تھی وہ
دوسرا برس لیکن بیتنے کو آیا
پھر بھی وہ نہیں آئی
کیا عجیب لڑکی تھی
آج وہ فنا اوڑھے
خاک کے گھروندے میں
گہری نیند سوئی ہے
ہنستی ہے نہ روتی ہے
بے وفا نہیں لیکن بے وفا سی لگتی ہے