عہد رفتہ کے رواجوں سے مانوس کہاں ہوں
تنہائی کے گوشوں میں بسا اپنا جہاں ہوں
اس ہنگامہ دنیا سے مجھے ہوتی ہے الجھن
آتا نہیں ہے مجھ کو بے کار کے بندھن
پرواز مری سوچ کے گمنام جزیرے
حیران مرے عقل کے دربان و پہرے
میں عقل و خرد سے ہوں بے گانہ و بے نیاز
جزبوں کے سمندر میں غرقاب مرے راز
رواجوں کی گرفت میں مقید یہاں انسان
خود ساختہ عقوبت خانوں میں حیران پریشان
جزبات سے خالی ہیں یہ اخلاص کے نعرے
روابات سڑک پر اور تہزیب ہیں بہرے
ایمان بیچ کھایا یہاں اہل جہاں
تہزیب گھٹنے پر پڑی ہے زپیش جواں
کیوں مجھ میں بسا وحشت و حیران کے زندان
رشتے ہیں پھنسے طمع دیواروں کے درمیان