جان کہتے ہو تو پھر جاں سے گزر جانے دو
خاک بن کر مجھے قدموں میں بکھر جانے دو
تیری آنکھوں میں چمکتے ہوئے جگنو بن کر
رات کے دیپ جلا کر ہی سنور جانے دو
ایک مہتاب سے چہرے کی تجلی کا سفر
ایک جوگن کی طرح آج تو کر جانے دو
ہے وہی تاج محل جس پہ بسیرا ہے ترا
اس کے آنگن کی ہوا بن کہ نکھر جانے دو
دیکھ کر جس کو تری سوچ میں طوفاں آئے
عہد سے وشمہ اسے اپنے مکر جانے دو