عید کا دن ہو اور تو نہ ہو
گویا کہ پھول میں خوشبو نہ ہو
عشق تطہیر سے عبارت ہے
کیا عبادت اگر وضو نہ ہو
کاش وہ وقت نہ آئے مجھ پر
دل میں جب تیری آرزو نہ ہو
مندمل اک تیرے آ جانے سے
زخم جو وقت سے رفو نہ ہو
ہر وہ لمحہ میرا گناہوں میں
جبکہ تو میرے روبرو نہ ہو
آنکھ سے آنکھ ملے سوچ ذرا
اور پھر کوئی گفتگو نہ ہو
لفظ وہ سب فضول کہ جن سے
زندگی کی کہیں نمو نہ ہو
چاند لمحوں کی بھی نہیں وقعت
چاند چہرہ جو کوبکو نہ ہو
زندگی ہے تو یہ بھی لازم ہے
کیا مزہ گر کوئی عدو نہ ہو
دل تیری جس ادا پہ دھڑک اٹھا
دیکھ لینا وہ فقط خو نہ ہو
غور سے دیکھ ذرا ماتھے پر
کوئی مہتاب ہو بہو نہ ہو
سرخیاں بانٹتے لب و رخسار
اتنی بھی جان سرخرو نہ ہو
کیسے ممکن ہے چاند آئے نظر
اور رومان چار سو نہ ہو