غزل کا ہر لفظ پُر آب ہے دیکھو
شاعر کتنا ہی بےتاب ہے دیکھو
کیا سوال جو تُم میرے ہو؟ بولے نہیں
کیا اُن کا اندازِ جواب ہے دیکھو
مجھے ترے عشق کا مارا ہوا کہتے ہیں
بڑا حسین مِلا مجھے خطاب دیکھو
آئو میرے گھر تو پتہ چلے حالات کا
چارو کونوں میں بیٹھا اضطراب ہے دیکھو
حیا کی چادر اُتاڑ کے جو ملا کرتا تھا
وہ شحض زیرِ نقاب ہے دیکھو
ختم ہوئی میری کہانی تری زبان پے
میری زندگی کا آخری باب ہے دیکھو
نہال مان لو بات میری اب ہی تُم
ساگرِ عشق میں زندگی احباب ہے دیکھو