پیار کرنا ہے قیامت دوستوں کی رائے میں
پھر بھی دل آتا نہیں ہے اب کسی سمجھائے میں
بیتتے جاتے ہیں اپنے اس طرح کچھ روزوشب
یاد کر کر کے اسے ہر اک نئے پیرائے میں
روشنی آتی تو ہے پر جان پہ کیوں چھاتی نہیں
شب میں ڈوبا ہے جہاں اور دل کسی کے سائے میں
پہلے دل ملتا ہے پھر ملتی ہیں روحیں بے نیاز
سود ملتا ہے برابر عشق کے سرمائے میں
پیار جو کرتے ہیں احمد موت سے ڈرتے نہیں
سینچ لیتے ہیں لہو سے خار عشق گلہائے میں