میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے دوست آکے اجال دو
مرے ذہن میں جو الجھ گئے انہیں خار و خس کو نکال دو
میں گلابوں جیسا سجا ہوا ہوں جہانِ فکر سے ماوراء
مری فکر کو مری سوچ کو کوئ آکے تازہ خیال دو
مرے بستروں کی ہے ہر شکن غمِ ہجر کا کوئ آئینہ
مرے خواب میں چلے آؤ اب مجھے رنج و غم سے نکال دو
مری دھڑکنوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذاب نے
مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا مری دھڑکنوں کو سنبھال دو